Alok Mishra

آلوک مشرا

نئی نسل کے نوجوان شاعر

Popular poet of the younger generation

آلوک مشرا کی غزل

    ذرا بھی کام نہ آئے گا مسکرانا کیا

    ذرا بھی کام نہ آئے گا مسکرانا کیا تنا رہے گا اداسی کا شامیانہ کیا میں چاہتا ہوں تکلف بھی ترک کر دو تم نہیں ہیں اب وہ مراسم تو آنا جانا کیا تمام تیر و تبر کیا مرے لئے ہی ہیں مجھی پہ لگنا ہے دنیا کا ہر نشانہ کیا انہیں کو چیر کے بڑھنا ہے اب کنارے پر اتر گئے ہیں تو لہروں سے خوف کھانا ...

    مزید پڑھیے

    تو کیا ہوا جو تماشائی ہو گیا ہوں میں

    تو کیا ہوا جو تماشائی ہو گیا ہوں میں ترے ہی حق میں تو سب جھوٹ بولتا ہوں میں نہیں یہ دکھ تو کسی اور کے سبب ہے سب تمہیں تو دل سے رہائی بھی دے چکا ہوں میں ڈروں نہ کیوں میں بھلا تیری غم گساری سے کہ اس کے بعد کے سب موڑ جانتا ہوں میں یہ پوچھنا تھا کہ میری بھی کچھ جگہ ہے کہیں تمہارے در پہ ...

    مزید پڑھیے

    ان کی آمد ہے گل فشانی ہے

    ان کی آمد ہے گل فشانی ہے رنگ خوشبو کی میزبانی ہے کیسی ہوگی نہ جانے شام عمر صبح جب ایسی سر گرانی ہے موت کا کچھ پتہ نہیں لیکن زندگی صرف نوحہ خوانی ہے مرنے والا ہے مرکزی کردار آخری موڑ پر کہانی ہے خودکشی جیسی کوئی بات نہیں اک ذرا مجھ کو بد گمانی ہے یہ جو بارود ہے ہواؤں میں آگ ...

    مزید پڑھیے

    بجھے لبوں پہ تبسم کے گل سجاتا ہوا

    بجھے لبوں پہ تبسم کے گل سجاتا ہوا مہک اٹھا ہوں میں تجھ کو غزل میں لاتا ہوا اجاڑ دشت سے یہ کون آج گزرا ہے گئی رتوں کی وہی خوشبوئیں لٹاتا ہوا تمہارے ہاتھوں سے چھٹ کر نہ جانے کب سے میں بھٹک رہا ہوں خلاؤں میں ٹمٹماتا ہوا نگل نہ جائے کہیں بے رخی مجھے تیری کہ رو پڑا ہوں میں اب کے تجھے ...

    مزید پڑھیے

    چیخ کی اور میں کھنچا جاؤں

    چیخ کی اور میں کھنچا جاؤں گھپ اندھیروں میں ڈوبتا جاؤں کب سے پھرتا ہوں اس توقع پر خود کو شاید کہیں میں پا جاؤں روح تک بجھ چکی ہے مدت سے تو جو چھو لے تو جگمگا جاؤں لمحہ لمحہ یہ چھانو گھٹتی ہے پتہ پتہ میں ٹوٹتا جاؤں دھوپ پی کر تمام صحرا کی ابر بن کر میں خود پہ چھا جاؤں دکھ سے کیسا ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے سائے سے اکتا گیا ہوں

    تمہارے سائے سے اکتا گیا ہوں میں اپنی دھوپ واپس چاہتا ہوں کہو کچھ تو زباں سے بات کیا ہے میں کیا پھر سے اکیلا ہو گیا ہوں مگر یہ سب مجھے کہنا نہیں تھا نہ جانے کیوں میں یہ سب کہہ رہا ہوں سبب کچھ بھی نہیں افسردگی کا میں بس خوش رہتے رہتے تھک گیا ہوں گلہ کرتا نہیں اب موسموں سے میں ان ...

    مزید پڑھیے

    سال یہ کون سا نیا ہے مجھے

    سال یہ کون سا نیا ہے مجھے وہ ہی گزرا گزارنا ہے مجھے چوک اٹھتا ہوں آنکھ لگتے ہی کوئی سایہ پکارتا ہے مجھے کیوں بتاتا نہیں کوئی کچھ بھی آخر ایسا بھی کیا ہوا ہے مجھے تب بھی روشن تھا لمس سے تیرے ورنہ کب عشق نے چھوا ہے مجھے عادتاً ہی اداس رہتا ہوں ورنہ کس بات کا گلہ ہے مجھے اب کے ...

    مزید پڑھیے

    اس طرف بھی وہی سیاہ غبار

    اس طرف بھی وہی سیاہ غبار ہم نے دیکھا ہے جا کے نیند کے پار کتنا کچھ بولنا پڑا تم کو ایک چھوٹا سا لفظ تھا انکار خشک آنکھوں کی چپ ڈرانے لگی دل مدد کر مری کسی کو پکار تجھ کو اے شخص کچھ خبر بھی ہے کس خرابے میں ہے ترا بیمار پھر یہ دکھ بھی تو آسمانی ہے کیا خفا ہونا اس زمین سے یار

    مزید پڑھیے

    دھوپ اب سر پہ آ گئی ہوگی

    دھوپ اب سر پہ آ گئی ہوگی کچھ نمی دشت میں بچی ہوگی دل مسلسل ہی زخم کھاتا ہے اس کی مٹی میں کچھ کمی ہوگی تو بھی کچھ بد حواس لوٹا ہے سانس رک رک کے ٹوٹتی ہوگی چاند شب بھر دہک رہا ہوگا نیند شب بھر پگھل رہی ہوگی گھر کی دیوار تھی ہی بوسیدہ اب کی بارش میں گر گئی ہوگی

    مزید پڑھیے

    نہیں اس چپ کے پیچھے کچھ نہیں ایسا

    نہیں اس چپ کے پیچھے کچھ نہیں ایسا بس اک شبہا سا ہے تم سے بھی وابستہ اسے تو خیر اتنا بھی نہیں اب یاد کہ پہلا جال اس نے کس پہ پھینکا تھا عجب سکھ تھا کسی کا دکھ بٹانے میں میں اپنی موت بھی ظاہر نہ کرتا تھا ہم ایسوں کی جگہ بنتی ہی کتنی ہے ہم ایسوں کا ٹھہرنا کیا بچھڑنا کیا مجھے درکار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3