سال یہ کون سا نیا ہے مجھے

سال یہ کون سا نیا ہے مجھے
وہ ہی گزرا گزارنا ہے مجھے


چوک اٹھتا ہوں آنکھ لگتے ہی
کوئی سایہ پکارتا ہے مجھے


کیوں بتاتا نہیں کوئی کچھ بھی
آخر ایسا بھی کیا ہوا ہے مجھے


تب بھی روشن تھا لمس سے تیرے
ورنہ کب عشق نے چھوا ہے مجھے


عادتاً ہی اداس رہتا ہوں
ورنہ کس بات کا گلہ ہے مجھے


اب کے اندر کے گھپ اندھیروں میں
ایک سورج اجالنا ہے مجھے


مستقل چپ سے آسماں کی طرح
ایک دن خود پہ ٹوٹنا ہے مجھے


میری تربت پہ پھول رکھ کر اب
وہ حقیقت بتا رہا ہے مجھے


کیا ضرورت ہے مجھ کو چہرے کی
کون چہرے سے جانتا ہے مجھے