تمہارے سائے سے اکتا گیا ہوں
تمہارے سائے سے اکتا گیا ہوں
میں اپنی دھوپ واپس چاہتا ہوں
کہو کچھ تو زباں سے بات کیا ہے
میں کیا پھر سے اکیلا ہو گیا ہوں
مگر یہ سب مجھے کہنا نہیں تھا
نہ جانے کیوں میں یہ سب کہہ رہا ہوں
سبب کچھ بھی نہیں افسردگی کا
میں بس خوش رہتے رہتے تھک گیا ہوں
گلہ کرتا نہیں اب موسموں سے
میں ان پیڑوں کے جیسا ہو گیا ہوں