Alam Khursheed

عالم خورشید

اہم ما بعد جدید شاعر

Prominent Post-Modern poet.

عالم خورشید کی غزل

    جانا تو بہت دور ہے مہتاب سے آگے

    جانا تو بہت دور ہے مہتاب سے آگے بڑھتے ہی نہیں پاؤں ترے خواب سے آگے کچھ اور حسیں موڑ تھے روداد سفر میں لکھا نہ مگر کچھ بھی ترے باب سے آگے تہذیب کی زنجیر سے الجھا رہا میں بھی تو بھی نہ بڑھا جسم کے آداب سے آگے موتی کے خزانے بھی تہہ آب چھپے تھے نکلا نہ کوئی خطرۂ گرداب سے آگے دیکھو ...

    مزید پڑھیے

    حیران ہو رہا ہوں بصیرت کے نام پر (ردیف .. ے)

    حیران ہو رہا ہوں بصیرت کے نام پر میں دیکھتا کچھ اور ہوں منظر کچھ اور ہے مجھ کو ستارہ اور کوئی کھینچتا ہے کیوں میرا علاقہ اور ہے محور کچھ اور ہے پتھر سمجھ رہا ہے زمانہ تو کیا کروں مٹھی میں میری جب کہ منور کچھ اور ہے تاثیر خاک آئے گی الفاظ میں مرے دل میں ہے اور بات لبوں پر کچھ اور ...

    مزید پڑھیے

    وقت سے پہلے درختوں پہ ثمر آنے لگے

    وقت سے پہلے درختوں پہ ثمر آنے لگے رات آئی بھی نہیں خواب سحر آنے لگے میں نے پہلا ہی قدم رکھا ہے دریا میں ابھی خیر مقدم کے لئے کتنے بھنور آنے لگے کیا خطا ہو گئی سرزد میں اسی سوچ میں ہوں سنگ کے بدلے مری سمت گہر آنے لگے اس لئے ظل الٰہی سے خفا ہیں راتیں ان کے ایوان میں کیوں خاک بسر ...

    مزید پڑھیے

    میں جدھر جاؤں مرا خواب نظر آتا ہے

    میں جدھر جاؤں مرا خواب نظر آتا ہے اب تعاقب میں وہ مہتاب نظر آتا ہے گونجتی رہتی ہیں ساحل کی صدائیں مجھ میں اور سمندر مجھے بیتاب نظر آتا ہے اتنا مشکل بھی نہیں یار یہ موجوں کا سفر ہر طرف کیوں تجھے گرداب نظر آتا ہے کیوں ہراساں ہے ذرا دیکھ تو گہرائی میں کچھ چمکتا سا تہہ آب نظر آتا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ چمکتا سا تہہ آب نظر تو آئے

    کچھ چمکتا سا تہہ آب نظر تو آئے ڈوبنے کے لئے گرداب نظر تو آئے کوئی تعبیر کی صورت بھی نکل آئے گی نیند تو آئے کبھی خواب نظر تو آئے بند کمرے کی فضا کس کو بھلی لگتی ہے میرے اطراف میں مہتاب نظر تو آئے دو گھڑی ٹھہروں کہیں میں بھی ذرا دم لے لوں راہ میں خطۂ شاداب نظر تو آئے میں شکستہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    تھپک تھپک کے جنہیں ہم سلاتے رہتے ہیں

    تھپک تھپک کے جنہیں ہم سلاتے رہتے ہیں وہ خواب ہم کو ہمیشہ جگاتے رہتے ہیں امیدیں جاگتی رہتی ہیں سوتی رہتی ہیں دریچے شمع جلاتے بجھاتے رہتے ہیں نہ جانے کس کا ہمیں انتظار رہتا ہے کہ بام و در کو ہمیشہ سجاتے رہتے ہیں کسی کو ڈھونڈتے ہیں ہم کسی کے پیکر میں کسی کا چہرہ کسی سے ملاتے رہتے ...

    مزید پڑھیے

    کیوں آنکھیں بند کر کے رستے میں چل رہا ہوں

    کیوں آنکھیں بند کر کے رستے میں چل رہا ہوں کیا میں بھی رفتہ رفتہ پتھر میں ڈھل رہا ہوں چاروں طرف ہیں شعلے ہم سایے جل رہے ہیں میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں میرے دھوئیں سے میری ہر سانس گھٹ رہی ہے میں راہ کا دیا ہوں اور گھر میں جل رہا ہوں آنکھوں پہ چھا گیا ہے کوئی طلسم ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کبھی کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے

    کبھی کبھی کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے ایروں غیروں کا احسان اٹھانا پڑتا ہے ٹیڑھے میڑھے رستوں پر بھی خوابوں کا پشتارہ تیری خاطر میری جان اٹھانا پڑتا ہے کب سنتا ہے نالہ کوئی شور شرابے میں مجبوری میں بھی طوفان اٹھانا پڑتا ہے کیسی ہوائیں چلنے لگی ہیں میرے باغوں میں پھولوں کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    تہہ بہ تہہ ہے راز کوئی آب کی تحویل میں

    تہہ بہ تہہ ہے راز کوئی آب کی تحویل میں خامشی یوں ہی نہیں رہتی ہے گہری جھیل میں میں نے بچپن میں ادھورا خواب دیکھا تھا کوئی آج تک مصروف ہوں اس خواب کی تکمیل میں ہر گھڑی احکام جاری کرتا رہتا ہے یہ دل ہاتھ باندھے میں کھڑا ہوں حکم کی تعمیل میں کب مری مرضی سے کوئی کام ہوتا ہے تمام ہر ...

    مزید پڑھیے

    جب تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی

    جب تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی یہ زندگی مجھے بھی دشوار لگ رہی تھی مجھ پر جھکی ہوئی تھی پھولوں کی ایک ڈالی لیکن وہ میرے سر پر تلوار لگ رہی تھی چھوتے ہی جانے کیسے قدموں میں آ گری وہ جو فاصلے سے اونچی دیوار لگ رہی تھی شہروں میں آ کے کیسے آہستہ رو ہوا میں صحرا میں تیز اپنی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5