Alam Khursheed

عالم خورشید

اہم ما بعد جدید شاعر

Prominent Post-Modern poet.

عالم خورشید کی غزل

    ہراساں ہوں سیاہی میں کمی ہوتی نہیں ہے

    ہراساں ہوں سیاہی میں کمی ہوتی نہیں ہے چراغاں کر رہا ہوں روشنی ہوتی نہیں ہے بہت چاہا کہ آنکھیں بند کر کے میں بھی جی لوں مگر مجھ سے بسر یوں زندگی ہوتی نہیں ہے لہو کا ایک اک قطرہ پلاتا جا رہا ہوں اگرچہ خاک میں پیدا نمی ہوتی نہیں ہے دریچوں کو کھلا رکھتا ہوں میں ہر وقت لیکن ہوا میں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی موسم نہ کبھی کر سکا شاداب ہمیں

    کوئی موسم نہ کبھی کر سکا شاداب ہمیں شہر میں جینے کے آئے نہیں آداب ہمیں بہتے دریا میں کوئی عکس ٹھہرتا ہی نہیں یاد آتا ہے بہت گاؤں کا تالاب ہمیں اس طرح پیاس بجھائی ہے کہاں دریا نے ایک قطرے نے کیا جس طرح سیراب ہمیں جھلملی روشنی ہر سمت نظر آتی ہے کھینچتی ہے کوئی قندیل تہہ آب ...

    مزید پڑھیے

    کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے

    کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے محبتوں میں کہاں اعتدال رہتا ہے فلک پہ چاند نکلتا ہے اور دریا میں بلا کا شور غضب کا ابال رہتا ہے دیار دل میں بھی آباد ہے کوئی صحرا یہاں بھی وجد میں رقصاں غزال رہتا ہے چھپا ہے کوئی فسوں گر سراب آنکھوں میں کہیں بھی جاؤ اسی کا جمال رہتا ہے تمام ...

    مزید پڑھیے

    جل بجھا ہوں میں مگر سارا جہاں تاک میں ہے

    جل بجھا ہوں میں مگر سارا جہاں تاک میں ہے کوئی تاثیر تو موجود مری خاک میں ہے کھینچتی رہتی ہے ہر لمحہ مجھے اپنی طرف جانے کیا چیز ہے جو پردۂ افلاک میں ہے کوئی صورت بھی نہیں ملتی کسی صورت میں کوزہ گر کیسا کرشمہ ترے اس چاک میں ہے کیسے ٹھہروں کہ کسی شہر سے ملتا ہی نہیں ایک نقشہ جو مرے ...

    مزید پڑھیے

    کھڑے ہیں دیر سے احباب دیکھنے کے لئے

    کھڑے ہیں دیر سے احباب دیکھنے کے لئے مرا سفینہ تہہ آب دیکھنے کے لئے کھلی جو آنکھ تو ہم ڈوبتے نظر آئے گئے تھے دور سے گرداب دیکھنے کے لئے عبث پریشاں ہیں تعبیر کی تگ و دو میں ملی ہے نیند ہمیں خواب دیکھنے کے لئے ترس رہی ہے مرے دشت کی فضا کب سے کسی درخت کو شاداب دیکھنے کے لئے اڑان ...

    مزید پڑھیے

    مرے حصار سے باہر بلا رہا ہے مجھے

    مرے حصار سے باہر بلا رہا ہے مجھے کوئی حسین سا منظر بلا رہا ہے مجھے جہاں مقیم تھا میں ایک اجنبی کی طرح وہی مکان اب اکثر بلا رہا ہے مجھے جو تھک کے بیٹھ گیا ہوں میں بیچ رستے میں تو اب وہ میل کا پتھر بلا رہا ہے مجھے ہوا ہے تشنہ لبی سے معاہدہ میرا عبث ہی روز سمندر بلا رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    جما ہوا ہے فلک پہ کتنا غبار میرا

    جما ہوا ہے فلک پہ کتنا غبار میرا جو مجھ پہ ہوتا نہیں ہے راز آشکار میرا تمام دنیا سمٹ نہ جائے مری حدوں میں کہ حد سے بڑھنے لگا ہے اب انتشار میرا دھواں سا اٹھتا ہے کس جگہ سے میں جانتا ہوں جلاتا رہتا ہے مجھ کو ہر پل شرار میرا بدل رہے ہیں سبھی ستارے مدار اپنا مرے جنوں پہ ٹکا ہے دار و ...

    مزید پڑھیے

    میں جس جگہ بھی رہوں گا وہیں پہ آئے گا

    میں جس جگہ بھی رہوں گا وہیں پہ آئے گا مرا ستارہ کسی دن زمیں پہ آئے گا لکیر کھینچ کے بیٹھی ہے تشنگی مری بس ایک ضد ہے کہ دریا یہیں پہ آئے گا مہیب سائے بڑھے آتے ہیں ہماری طرف کب اعتبار ہمیں دوربیں پہ آئے گا اب اس ادا سے ہوائیں دئے بجھائیں گی کہ اتہام بھی خانہ نشیں پہ آئے گا کمان ...

    مزید پڑھیے

    نہ انتشار کا خطرہ نہ انہدام کا ہے

    نہ انتشار کا خطرہ نہ انہدام کا ہے یہ مرحلہ تو تباہی کے اختتام کا ہے جو ختم ہو گیا رشتہ وہ دوستی کا تھا جو بچ گیا ہے تعلق وہ انتقام کا ہے ہر ایک لمحہ عجب خوف بے پناہی کا ہمارے عہد میں یہ رنگ صبح و شام کا ہے بچائیں کس طرح بلوائیوں سے بستی کو محافظوں کا ارادہ بھی قتل عام کا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک ترے خواب سے انکار نہیں ہے

    بس ایک ترے خواب سے انکار نہیں ہے دل ورنہ کسی شے کا طلب گار نہیں ہے آنکھوں میں حسیں خواب تو ہیں آج بھی لیکن تعبیر سے اب کوئی سروکار نہیں ہے دریا سے ابھی تک ہے وہی ربط ہمارا کشتی میں ہماری کوئی پتوار نہیں ہے حیرت سے نئے شہر کو میں دیکھ رہا ہوں دیوار تو ہے سایۂ دیوار نہیں ہے اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5