میں جدھر جاؤں مرا خواب نظر آتا ہے

میں جدھر جاؤں مرا خواب نظر آتا ہے
اب تعاقب میں وہ مہتاب نظر آتا ہے


گونجتی رہتی ہیں ساحل کی صدائیں مجھ میں
اور سمندر مجھے بیتاب نظر آتا ہے


اتنا مشکل بھی نہیں یار یہ موجوں کا سفر
ہر طرف کیوں تجھے گرداب نظر آتا ہے


کیوں ہراساں ہے ذرا دیکھ تو گہرائی میں
کچھ چمکتا سا تہہ آب نظر آتا ہے


میں تو تپتا ہوا صحرا ہوں مجھے خوابوں میں
بے سبب خطۂ شاداب نظر آتا ہے


راہ چلتے ہوئے بیچاری تہی دستی کو
سنگ بھی گوہر نایاب نظر آتا ہے


یہ نئے دور کا بازار ہے عالمؔ صاحب
اس جگہ ٹاٹ بھی کم خواب نظر آتا ہے