جفا کی رسم ستم کا رواج بدلے گا

جفا کی رسم ستم کا رواج بدلے گا
فقیہ شہر کا آخر مزاج بدلے گا


میں جانتا ہوں بدلتی رتوں کی خوشبو سے
ہوائے دشت ترا امتزاج بدلے گا


جمود مرگ نمود اصل زندگی ہے تو پھر
جو کل نہ بدلا یقیناً وہ آج بدلے گا


خلوص و مہر و وفا خواب ہو گئے جیسے
نہ جانے کب یہ نحوست کا راج بدلے گا


نئے شعور کے چرچے ہیں چار سو اخترؔ
مجھے یقیں ہے یہ کہنہ سماج بدلے گا