ہم نشیں رات ہے تو رات بھی ڈھل جائے گی

ہم نشیں رات ہے تو رات بھی ڈھل جائے گی
صبح دم صورت حالات بدل جائے گی


حدت شوق سلامت ہے تو زنجیر جفا
صورت شمع کسی روز پگھل جائے گی


ان کا دم بھرتے ہو تو غم نہ کرو آخر کار
ان پہ دم دینے کی حسرت بھی نکل جائے گی


ہم صفیرو کبھی مٹتی ہے تمنائے بہار
یہ کسی پھول کسی شعلے میں ڈھل جائے گی


یہی بہتر ہے کہ قربان وفا ہو جائے
جاں اگر آج نہ جائے گی تو کل جائے گی


کس کو معلوم تھا ملبوس صبا میں صرصر
آ کے گلشن میں شگوفوں کو مسل جائے گی


اب کے ساون بھی اگر ابر نہ برسا اخترؔ
جو کلی شاخ پہ نکلے گی وہ جل جائے گی