برش تیغ بھی ہے پھول کی مہکار بھی ہے

برش تیغ بھی ہے پھول کی مہکار بھی ہے
وہ خموشی کہ جو صد موجب اظہار بھی ہے


چھوڑیئے ان کے شب و روز کی روداد زبوں
آپ کو خاک نشینوں سے سروکار بھی ہے


مصلحت مجھ کو بھی ملحوظ ہے اے ہم سخنو
پر مرے پیش نظر وقت کی رفتار بھی ہے


موت کے خوف سے ہر سانس رکی جاتی ہے
زندگی آج کوئی تیرا خریدار بھی ہے


تلخیٔ حال کو ہے عشرت فردا کا فریب
دل جنوں کوش ہے اور عقل طرحدار بھی ہے


میرے محبوب مجھے وقف تغافل نہ سمجھ
زیست کے لاکھ تقاضے ہیں تیرا پیار بھی ہے


اہل گفتار کی تو بھیڑ لگی ہے اخترؔ
دیکھنا ان میں کوئی صاحب کردار بھی ہے