Akhtar Saeed Khan

اختر سعید خان

ترقی پسند ادبی نظرے کے شاعر، انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری بھی رہے

A poet with sympathies for progressive ideology, also worked as the secretary of Progressive Writers Association

اختر سعید خان کی غزل

    یہ ہم سے پوچھتے ہو رنج امتحاں کیا ہے

    یہ ہم سے پوچھتے ہو رنج امتحاں کیا ہے تمہیں کہو صلۂ خون کشتگاں کیا ہے اسیر بند خزاں ہوں نہ پوچھ اے صیاد خرام کیا ہے صبا کیا ہے گلستاں کیا ہے ہوئی ہے عمر کہ دل کو نظر سے ربط نہیں مگر یہ سلسلۂ چشم خوں فشاں کیا ہے نظر اٹھے تو نہ سمجھوں جھکے تو کیا سمجھوں سکوت ناز یہ پیرایۂ بیاں کیا ...

    مزید پڑھیے

    سن رہا ہوں بے صدا نغمہ جو میں با چشم تر

    سن رہا ہوں بے صدا نغمہ جو میں با چشم تر چپکے چپکے زندگی ہنستی ہے میرے حال پر اپنی ساری عمر کھو کر میں نے پایا ہے تمہیں آؤ میرے غم کے سناٹو مرے نزدیک تر ایک دل تھا سو ہوا ہے پائمال آرزو اب نہ کوئی رہنما ہے اور نہ کوئی ہم سفر ہر قدم پر پوچھتا ہوں پاؤں کے چھالوں سے میں یہ مری منزل ہے ...

    مزید پڑھیے

    موج شمیم ہیں نہ خرام صبا ہیں ہم

    موج شمیم ہیں نہ خرام صبا ہیں ہم ٹھہری ہوئی گلوں کے لبوں پر دعا ہیں ہم بیگانہ خلق سے ہیں نہ تجھ سے خفا ہیں ہم اے زندگی معاف کہ دیر آشنا ہیں ہم اس راز کو بھی فاش کر اے چشم دل نواز کانٹا کھٹک رہا ہے یہ دل میں کہ کیا ہیں ہم یا رب ترا کمال ہنر ہم پہ ختم ہے یا صرف مشق ناز کا اک تجربہ ہیں ...

    مزید پڑھیے

    عشق کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کا ماتم کیا کریں

    عشق کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کا ماتم کیا کریں زندگی آ تجھ سے پھر اک بار سمجھوتا کریں زندگی کب تک ترے درماندگان آرزو خواب دیکھیں اور تعبیروں کو شرمندہ کریں مڑ کے دیکھا اور پتھر کے ہوئے اس شہر میں خود صدا بن جاؤ آوازیں اگر پیچھا کریں ناامیدانہ بھی جینے کا سلیقہ ہے ہمیں آئنے ٹوٹے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے

    زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے یاد آتے ہیں بہت دل کو دکھانے والے راستے چپ ہیں نسیم سحری بھی چپ ہے جانے کس سمت گئے ٹھوکریں کھانے والے اجنبی بن کے نہ مل عمر گریزاں ہم سے تھے کبھی ہم بھی ترے ناز اٹھانے والے آ کہ میں دیکھ لوں کھویا ہوا چہرہ اپنا مجھ سے چھپ کر مری تصویر بنانے ...

    مزید پڑھیے

    دل شوریدہ کی وحشت نہیں دیکھی جاتی

    دل شوریدہ کی وحشت نہیں دیکھی جاتی روز اک سر پہ قیامت نہیں دیکھی جاتی اب ان آنکھوں میں وہ اگلی سی ندامت بھی نہیں اب دل زار کی حالت نہیں دیکھی جاتی بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی آپ کی رنجش بے جا ہی بہت ہے مجھ کو دل پہ ہر تازہ مصیبت نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4