موج شمیم ہیں نہ خرام صبا ہیں ہم
موج شمیم ہیں نہ خرام صبا ہیں ہم
ٹھہری ہوئی گلوں کے لبوں پر دعا ہیں ہم
بیگانہ خلق سے ہیں نہ تجھ سے خفا ہیں ہم
اے زندگی معاف کہ دیر آشنا ہیں ہم
اس راز کو بھی فاش کر اے چشم دل نواز
کانٹا کھٹک رہا ہے یہ دل میں کہ کیا ہیں ہم
یا رب ترا کمال ہنر ہم پہ ختم ہے
یا صرف مشق ناز کا اک تجربہ ہیں ہم
آخر ترے سلوک نے جھٹلا دیا اسے
اک زعم تھا ہمیں کہ سراپا وفا ہیں ہم
کل اس زمیں پہ اتریں گے پھولوں کے قافلے
اک پیکر بہار کی آواز پا ہیں ہم