سن رہا ہوں بے صدا نغمہ جو میں با چشم تر

سن رہا ہوں بے صدا نغمہ جو میں با چشم تر
چپکے چپکے زندگی ہنستی ہے میرے حال پر


اپنی ساری عمر کھو کر میں نے پایا ہے تمہیں
آؤ میرے غم کے سناٹو مرے نزدیک تر


ایک دل تھا سو ہوا ہے پائمال آرزو
اب نہ کوئی رہنما ہے اور نہ کوئی ہم سفر


ہر قدم پر پوچھتا ہوں پاؤں کے چھالوں سے میں
یہ مری منزل ہے یا باقی ہے میری رہ گزر


کون ہے یہ جو مرے دل میں ہے اب تک محو خواب
ڈھونڈتے ہیں ایک مدت سے جسے شام و سحر


بند ہیں وارفتگان حسن پر سب راستے
تیرے در سے میں اگر اٹھوں تو جاؤں گا کدھر


جل رہا ہے آتش فرقت میں لیکن زندہ ہے
کیوں لیے بیٹھا ہے یہ الزام اخترؔ اپنے سر