عائشہ ایوب کی غزل

    مرے ہاتھوں میں ابھرا ہے یہ نقشہ کس طرح کا ہے

    مرے ہاتھوں میں ابھرا ہے یہ نقشہ کس طرح کا ہے مری آنکھوں میں ٹھہرا ہے یہ دریا کس طرح کا ہے یہ میرا جسم ہے آزاد لیکن روح قیدی ہے خدایا کوئی بتلائے یہ پنجرا کس طرح کا ہے مری آہوں کو میرے قہقہوں نے ڈھانک رکھا ہے مری اس لاش کے اوپر یہ ملبہ کس طرح کا ہے ہے جن میں بوجھ دنیا بھر کا مذہب ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے ہجر کو ایسے منا رہے تھے ہم

    کسی کے ہجر کو ایسے منا رہے تھے ہم گھڑی میں وقت کو الٹا گھما رہے تھے ہم نہیں تھا یاد سبق اپنی زندگی کا ہمیں سو امتحان کا پرچہ بنا رہے تھے ہم کنارے بیٹھ کے آنسو بہا کے آئے تھے ندی کی پیاس کو پانی پلا رہے تھے ہم کیا یہ جرم کہ اپنے ہی دل کی سنتے تھے یہی کہیں کہ خود اپنی سزا رہے تھے ...

    مزید پڑھیے

    اگر وہ خود ہی بچھڑ جانے کی دعا کرے گا

    اگر وہ خود ہی بچھڑ جانے کی دعا کرے گا تو اس سے بڑھ کے مرے ساتھ کوئی کیا کرے گا سنا ہے آج وہ مرہم پہ چوٹ رکھے گا مجھی سے مجھ کو بھلانے کا مشورہ کرے گا ترس رہی ہیں یہ آنکھیں اس ایک منظر کو جہاں سے لوٹ کے آنے کا دکھ ہوا کرے گا اگر یہ پھول ہے میری بلا سے مرجھائے اگر یہ زخم ہے مالک اسے ...

    مزید پڑھیے

    دن گزرا اور شام ڈھلی پھر وحشت لے کر آئی رات

    دن گزرا اور شام ڈھلی پھر وحشت لے کر آئی رات جب بھی اس کا ہجر منایا ہم نے وہ کہلائی رات اس کو رونے سے پہلے کچھ ہم نے یوں تیاری کی کونے میں تنہائی رکھی کمرے میں پھیلائی رات تو نے کیسے سوچ لیا کہ تیرے تحفے بھول گئے دل نے تیرے غم کو پہنا آنکھوں کو پہنائی رات ساون آیا لیکن سوکھی ...

    مزید پڑھیے

    درد میں میرے کمی آ جائے

    درد میں میرے کمی آ جائے اتنا رو لوں کہ ہنسی آ جائے اس کے ہوتے ہوئے بھی اس دل میں یہ نہ ہو اور کوئی آ جائے نیند اس شرط پہ آئے گی کہ خواب جھوٹا ہی سہی آ جائے خود کو آواز دوں میں پھر چاہے میرے اندر سے تو ہی آ جائے پیار اس پہ بھی ذرا برسا دو اس کی باتوں میں نمی آ جائے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2