عائشہ ایوب کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    وہ جو اپنی ذات میں رکھتے ہیں عریانی کا شور

    وہ جو اپنی ذات میں رکھتے ہیں عریانی کا شور خلد سے آئے ہیں لے کے روح یزدانی کا شور دشت میں رہتے ہیں پیاسے اور دریچے وا کئے خوش ہوا کرتے ہیں سن کے دور سے پانی کا شور ایک لڑکی چوڑیاں کھنکا رہی تھی اور تبھی اس کھنک سے اٹھ رہا تھا جیسے زندانی کا شور ہر کسی کا ایک لا ظاہر مقرب ہے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بات رہ گئی تھی بتانے کے باوجود

    کچھ بات رہ گئی تھی بتانے کے باوجود ہوں حالت سفر میں گھر آنے کے باوجود دل سے اتر چکا تھا جو آ کر گلے ملا دوری وہی تھی دل سے لگانے کے باوجود ہاتھوں میں اب بھی اس کی ہے خوشبو بسی ہوئی جو رہ گئی تھی ہاتھ چھڑانے کے باوجود پرزے وہ خط کے آج بھی رکھے ہیں میرے پاس جو بچ گئے تھے خط کو جلانے ...

    مزید پڑھیے

    یہ بن سنور کے مری سادگی میں لوٹ آئے

    یہ بن سنور کے مری سادگی میں لوٹ آئے مرے خیال مری شاعری میں لوٹ آئے اسے کہو کہ مری ذات اب بھی باقی ہے دیا بجھا دے مری روشنی میں لوٹ آئے وہ جس طرح سے پرندے شجر پہ لوٹتے ہیں ہم اپنے آپ سے نکلے تجھی میں لوٹ آئے جو میں ہنسوں تو مرا اشک بن کے وہ چھلکے کسی طرح سے وہ میری ہنسی میں لوٹ ...

    مزید پڑھیے

    خوشی میں یوں اضافہ کر لیا ہے

    خوشی میں یوں اضافہ کر لیا ہے بہت سا غم اکٹھا کر لیا ہے ہمیں ہم سے بچانے کون آتا سو اب خود سے کنارہ کر لیا ہے مری تنہائی کا عالم تو دیکھو زمانے بھر کو یکجا کر لیا ہے تجھے جانے کی جلدی تھی سو خود سے ترے حصے کا شکوہ کر لیا ہے نہیں مانگیں گے تجھ کو اب دعا میں خدا سے ہم نے جھگڑا کر لیا ...

    مزید پڑھیے

    اک نئی داستاں سنانے دو

    اک نئی داستاں سنانے دو آج کی نیند پھر گنوانے دو بیڑیاں توڑ کر سماجوں کی عشق میں قید ہیں دوانے دو میرے ماضی کے ریگزاروں میں خط ملے ہیں مجھے پرانے دو آج روئیں گے ہم بھی جی بھر کے غم تو بس ایک ہے بہانے دو اس کو آزاد کر چکی ہوں میں پھر بھی کہتا ہے مجھ کو جانے دو ایک چہرے سے میں ...

    مزید پڑھیے

تمام