دن گزرا اور شام ڈھلی پھر وحشت لے کر آئی رات

دن گزرا اور شام ڈھلی پھر وحشت لے کر آئی رات
جب بھی اس کا ہجر منایا ہم نے وہ کہلائی رات


اس کو رونے سے پہلے کچھ ہم نے یوں تیاری کی
کونے میں تنہائی رکھی کمرے میں پھیلائی رات


تو نے کیسے سوچ لیا کہ تیرے تحفے بھول گئے
دل نے تیرے غم کو پہنا آنکھوں کو پہنائی رات


ساون آیا لیکن سوکھی احساسوں کی ہریالی
بنجر دل میں آنسو بوئے اوپر سے برسائی رات


کوئی بھی موسم آیا ہو ہم پر تو برسات ہوئی
اس کی یادوں نے جو گھیرا دوپہروں پر چھائی رات


اس پل جیسے بول پڑا ہو دیواروں کا سناٹا
اس کی راہیں تکتے تکتے جیسے ہو اکتائی رات


کتنے ہی منظر شامل ہیں میری سونی آنکھوں میں
چپ کے سے آ کے کرتی ہے پلکوں کی ترپائی رات


چاہت کی یہ ریشمی گرہیں اور پلکوں پر نیند کا بوجھ
یادوں سے جو بچ نکلے تو خوابوں نے الجھائی رات