احسن رضوی کی نظم

    یہ کیسی خلش ہے

    منوں مٹی کے نیچے دب کے مردہ جسم کا کیا حشر ہوتا ہے بخوبی جانتا ہوں میں سبھی کچھ خاک ہو جاتا ہے کچھ دن میں یہ سب کچھ جان کر بھی جانے یہ کیسی خلش ہے جو مجھے اکثر ترے مرقد پہ لاتی ہے کبھی نم دیدہ کرتی ہے کبھی ڈھارس بندھاتی ہے کبھی یادوں کے اس رنگین محل میں لے کے جاتی ہے جہاں پر حسن ہے ...

    مزید پڑھیے

    اس بار

    یہ خواہش ہے اس بار بادل جو آئیں تو سر پر ہمارے رہیں کچھ دنوں یہ کالے سے بھورے سے بادل پھر ان کا ہو کچھ اس طرح سے ملن بڑے زور کی گھن گرج ہو بہت دور تک بجلیاں کوند جائیں جھما جھم ہو بارش زمیں جو کہ عرصے سے تپتی رہی ہے وہ سیراب ہو جائے کچھ اس طرح سے کہ اس پر ردا اک ہری پھیل جائے ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ایسا لگتا ہے

    اس کے ارادوں رویوں اور منصوبوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس نے اپنے گھر کے سارے آئینوں کو توڑ دیا ہے

    مزید پڑھیے

    آج پھر

    مجھے آج پھر وہ نظم شدت سے یاد آئی جو میں نے برسوں پہلے ایک خواب کے بکھر جانے پر کہی تھی ویسے میں نے عرصے سے خواب دیکھنا بند کر دیا تھا یعنی سرابوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیا تھا مگر خواب کب پیچھا چھوڑتے ہیں ادھر پھر کچھ دنوں سے ایک خواب آنکھوں میں رہا جس کے خوب صورت رنگ محل کے تانے ...

    مزید پڑھیے

    مگر میں کیا کروں

    پھل آنے پر شاخیں جھکتی ہیں پھول اپنا اشتہار نہیں دیا کرتے ان کا رنگ اور خوشبو خود بہ خود لوگوں کو اپنی سمت کھینچتی ہے یہ اور ایسی تمام دوسری کہاوتیں مجھے ہمیشہ اپیل کرتی ہیں مگر میں کیا کروں مرے آس پاس زیادہ تر لوگ بات بات پر اپنی تعریف کرتے نہیں تھکتے

    مزید پڑھیے

    پھر لوٹ چلیں

    صدیوں پہلے آدمی جنگل سے میدان کی سمت آیا تھا بستیاں بسا کر زندگی گزارنے کے لئے مگر اب بستیاں ہی جنگل بن گئی ہیں جہاں انسان جانور سے بد تر خصلتوں کا حامل ہو گیا ہے چلو پھر جنگل کی طرف لوٹ چلیں فطرت سے قریب ہونے کے لئے پر سکون زندگی کی تلاش میں

    مزید پڑھیے