احسن رضوی کی غزل

    کوئی آہٹ کوئی دستک کوئی جھنکار تو ہو

    کوئی آہٹ کوئی دستک کوئی جھنکار تو ہو اس کی جانب سے کسی بات کا اظہار تو ہو بخل سے کام نہ لوں گا میں سراہوں گا اسے کوئی چہرہ ترے مانند طرحدار تو ہو زخم سہہ لوں گا منڈیروں پہ لگے شیشوں کے کوئی شے دید کے قابل پس دیوار تو ہو چند لمحوں کی مسافت ہو کہ برسوں کا سفر کیف پرور ہیں سبھی سنگ ...

    مزید پڑھیے

    دھواں اٹھ رہا ہے جو باہر میاں

    دھواں اٹھ رہا ہے جو باہر میاں سلگتا ہے کچھ اپنے اندر میاں میں خود تو بھٹکنے کا قائل نہیں گھماتا پھرے ہے مقدر میاں گماں بیٹھے بیٹھے یہ اکثر ہوا گیا ہے ابھی کوئی اٹھ کر میاں یہ مانا کہ دیوار و در ہیں وہی مگر اب یہ لگتا نہیں گھر میاں مرے رخ پہ تحریر کیا کچھ نہیں کبھی کوئی دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    بدن کو چنگ بنا روح کو رباب بنا

    بدن کو چنگ بنا روح کو رباب بنا سراپا اپنا بہت کیف اضطراب بنا اک اشتہار کی صورت میں پڑھ کے آگے نکل نہ اپنے واسطے ہر شخص کو کتاب بنا مرے سوالوں کو سن لے یہی بہت ہوگا جواب دے کے مجھے یوں نہ لا جواب بنا فسردہ رہ کے ہمہ وقت کیا ملے گا تجھے کبھی کبھار تو چہرے کو تو گلاب بنا ضمیر پر جو ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ دل تھا پر ایسا نہیں تھا

    شکستہ دل تھا پر ایسا نہیں تھا میں اپنے آپ میں سمٹا نہیں تھا درختوں کے گھنے سائے میں رہ کر چمکتی دھوپ کو بھولا نہیں تھا در و دیوار میرے منتظر تھے مگر میں لوٹ کر آیا نہیں تھا بہت سے لوگ مجھ سے ملتفت تھے کسی کی سمت میں لپکا نہیں تھا دبے پاؤں وہی در آیا دل میں کہ جس کا دور تک کھٹکا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے اجداد کی خو بو آئے

    اپنے اجداد کی خو بو آئے کاش بچوں کو بھی اردو آئے ہم چمن میں ہیں تو یہ خواہش ہے اپنے حصے میں بھی خوشبو آئے یاد آئی جو کسی کی تو لگا دست احساس میں جگنو آئے بات نکلی تو گئی دور تلک گفتگو میں کئی پہلو آئے سب ہیں انسان تو پھر ذہنوں میں کیوں یہ تفریق من و تو آئے خشک آنکھوں میں بڑی ...

    مزید پڑھیے

    آتے جاتے ہوئے ہر شخص کو تکتے کیوں ہو

    آتے جاتے ہوئے ہر شخص کو تکتے کیوں ہو گنجلک ہیں سبھی تحریریں تو پڑھتے کیوں ہو صرف سناٹا وہاں راہ تکا کرتا ہے بے سبب شام سے ہی گھر کو پلٹتے کیوں ہو یہ نہیں گاؤں کہ ہر شخص خلوص آگیں ہو شہر میں رہ کے بناوٹ سے بدکتے کیوں ہو

    مزید پڑھیے

    میں کہ خوددار تھا ٹھہرا نہ کسی چھاؤں تلے

    میں کہ خوددار تھا ٹھہرا نہ کسی چھاؤں تلے گو کہ رستے میں ملے تھے کئی اشجار گھنے ذہن وہ شہر جہاں نت نیا ہیجان رہے دل وہ بستی کہ جہاں خواب اگیں درد پلے زندگانی یہ تری تیز روی ٹھیک نہیں کوئی چہرہ تو ذرا دیر نگاہوں میں رہے کب شب و روز کے ہنگام نے مہلت بخشی میں نے دوران سفر ہی نئے ...

    مزید پڑھیے