میں کہ خوددار تھا ٹھہرا نہ کسی چھاؤں تلے
میں کہ خوددار تھا ٹھہرا نہ کسی چھاؤں تلے
گو کہ رستے میں ملے تھے کئی اشجار گھنے
ذہن وہ شہر جہاں نت نیا ہیجان رہے
دل وہ بستی کہ جہاں خواب اگیں درد پلے
زندگانی یہ تری تیز روی ٹھیک نہیں
کوئی چہرہ تو ذرا دیر نگاہوں میں رہے
کب شب و روز کے ہنگام نے مہلت بخشی
میں نے دوران سفر ہی نئے اشعار کہے