شکستہ دل تھا پر ایسا نہیں تھا
شکستہ دل تھا پر ایسا نہیں تھا
میں اپنے آپ میں سمٹا نہیں تھا
درختوں کے گھنے سائے میں رہ کر
چمکتی دھوپ کو بھولا نہیں تھا
در و دیوار میرے منتظر تھے
مگر میں لوٹ کر آیا نہیں تھا
بہت سے لوگ مجھ سے ملتفت تھے
کسی کی سمت میں لپکا نہیں تھا
دبے پاؤں وہی در آیا دل میں
کہ جس کا دور تک کھٹکا نہیں تھا
جسے اک عمر کا حاصل سمجھتا
مرے جیون میں وہ لمحہ نہیں تھا