Ahsan Ahmad Ashk

احسن احمد اشک

بنیادی انسانی مسائل کو شاعری کا موضوع بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں

A poet known for drawing upon the basic human issues

احسن احمد اشک کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    میں تھا اک شمع سوزاں رات بھر اٹھا دھواں مجھ سے

    میں تھا اک شمع سوزاں رات بھر اٹھا دھواں مجھ سے سنی دنیا نے سو سو طرح دل کی داستاں مجھ سے ڈبو دی آبروئے سوز پنہاں تو نے آنکھوں کی شکایت کر رہے ہیں قطرہ ہائے رائیگاں مجھ سے رفیق کاروان نگہت گل ہے مری وحشت نہ آگے بڑھ سکے گی تو نگاہ باغباں مجھ سے مجھے نیند آ گئی تھی راہ کی ٹھنڈی ...

    مزید پڑھیے

    ردا کوئی دل ربا نہیں ہے نگہ کوئی دل نشیں نہیں ہے

    ردا کوئی دل ربا نہیں ہے نگہ کوئی دل نشیں نہیں ہے طلسم ذوق نظر ہیں جلوے وگرنہ کوئی حسیں نہیں ہے ہمارے مقصد کی گمرہی سے قدم قدم پر بنے ہیں کعبے یہاں جھکی ہے وہاں جھکے گی کچھ کچھ اعتبار جبیں نہیں ہے ازل سے یہ رند لاابالی گدائے میخانۂ نظر ہے قسم تری کافر انکھڑیوں کی شراب ایسی کہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ تھی زلفیں تھیں اور شانہ تھا

    وہ تھی زلفیں تھیں اور شانہ تھا کتنا الجھا ہوا فسانہ تھا ان کا اٹھنا ہمیں اٹھانا تھا درد سر یوں ہی اک بہانہ تھا پاؤں میں آبلے نہ پڑ جاتے دو قدم پر غریب خانہ تھا کیف عہد شباب کیا کہنا ہر قدم پر شراب خانہ تھا کھو گئی تھی نگاہ جلووں میں سارا عالم نگار خانہ تھا تم نے اس کو بھی سن ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ باغباں کیا کہہ گئی گلہائے خنداں سے

    نگاہ باغباں کیا کہہ گئی گلہائے خنداں سے کہ اٹھا کاروان رنگ و بو صحن گلستاں سے مدد اے دیدۂ بینا مدد اے تاب نظارہ تجلی مسکراتی ہے نقاب روئے جاناں سے نسیم صبح کے جھونکوں سے کیا کھٹکا بھلا اس کو مری شمع تمنا وہ ہے جو لڑتی ہے طوفاں سے معاذ اللہ صحرا کی شب تاریک و طوفانی مسافر خود نہ ...

    مزید پڑھیے

    انگ انگ جھلک اٹھتا ہے انگوں کے درپن کے بیچ

    انگ انگ جھلک اٹھتا ہے انگوں کے درپن کے بیچ مان سروور امڈے امڈے ہیں بھرپور بدن کے بیچ چاند انگڑائی پر انگڑائی لیتے ہیں جوبن کے بیچ مدھم مدھم دیپ جلے ہیں سوئے سوئے نین کے بیچ مکھڑے کے کئی روپ دودھیا چاندنی بھور سنہری دھوپ رات کی کلیاں چٹکی چٹکی سی بالوں کے بن کے بیچ متھرا کے ...

    مزید پڑھیے

2 نظم (Nazm)

    شام سے تا بہ سحر کتنے ستارے ٹوٹے

    کتنی ضو پاش امیدوں کے سہارے چھوٹے چاند اک مست شرابی کی طرح وارفتہ کہر کی دھند میں چلتا رہا گرتا پڑتا دشت تنہائی میں اٹھتے رہے خوش رنگ سراب رنگ کی لہروں پہ کھلتے رہے نسرین و گلاب سرو کے سائے میں الجھے ہوئے انفاس کے راگ ماضی و حال کے سنگم پہ چلاتے رہے آگ پہلے اک آگ لگی آگ پھر اک ...

    مزید پڑھیے

    اعتراف

    شب نشاط کے پیاروں کو چھوڑ آیا ہوں میں کتنے چاند ستاروں کو چھوڑ آیا ہوں یہ چاندنی پہ گھٹائیں یہ نیلگوں دریا میں ایسے کتنے نظاروں کو چھوڑ آیا ہوں تصورات کی دنیا حسین تھی جن سے میں ان حسین دیاروں کو چھوڑ آیا ہوں کوئی بتائے مجھے اب جیوں تو کیسے جیوں میں زندگی کے سہاروں کو چھوڑ آیا ...

    مزید پڑھیے