اعتراف
شب نشاط کے پیاروں کو چھوڑ آیا ہوں
میں کتنے چاند ستاروں کو چھوڑ آیا ہوں
یہ چاندنی پہ گھٹائیں یہ نیلگوں دریا
میں ایسے کتنے نظاروں کو چھوڑ آیا ہوں
تصورات کی دنیا حسین تھی جن سے
میں ان حسین دیاروں کو چھوڑ آیا ہوں
کوئی بتائے مجھے اب جیوں تو کیسے جیوں
میں زندگی کے سہاروں کو چھوڑ آیا ہوں
ہے اپنی پستئ ہمت کا اعتراف مجھے
خزاں کی زد پہ بہاروں کو چھوڑ آیا ہوں