شام سے تا بہ سحر کتنے ستارے ٹوٹے
کتنی ضو پاش امیدوں کے سہارے چھوٹے چاند اک مست شرابی کی طرح وارفتہ کہر کی دھند میں چلتا رہا گرتا پڑتا دشت تنہائی میں اٹھتے رہے خوش رنگ سراب رنگ کی لہروں پہ کھلتے رہے نسرین و گلاب سرو کے سائے میں الجھے ہوئے انفاس کے راگ ماضی و حال کے سنگم پہ چلاتے رہے آگ پہلے اک آگ لگی آگ پھر اک ...