میں تھا اک شمع سوزاں رات بھر اٹھا دھواں مجھ سے

میں تھا اک شمع سوزاں رات بھر اٹھا دھواں مجھ سے
سنی دنیا نے سو سو طرح دل کی داستاں مجھ سے


ڈبو دی آبروئے سوز پنہاں تو نے آنکھوں کی
شکایت کر رہے ہیں قطرہ ہائے رائیگاں مجھ سے


رفیق کاروان نگہت گل ہے مری وحشت
نہ آگے بڑھ سکے گی تو نگاہ باغباں مجھ سے


مجھے نیند آ گئی تھی راہ کی ٹھنڈی ہواؤں میں
میں اک واماندہ ہوں پوچھو حدیث کارواں مجھ سے


مرے دل کی تمنا طرۂ دستار گلچیں ہو
اور اس پر یہ قیامت داد مانگے باغباں مجھ سے


سراپا ماتم نظارہ ہے آنکھوں کی مایوسی
کہ پردہ اٹھ چکا ہے اور جلوے ہیں نہاں مجھ سے