وہ تھی زلفیں تھیں اور شانہ تھا

وہ تھی زلفیں تھیں اور شانہ تھا
کتنا الجھا ہوا فسانہ تھا


ان کا اٹھنا ہمیں اٹھانا تھا
درد سر یوں ہی اک بہانہ تھا


پاؤں میں آبلے نہ پڑ جاتے
دو قدم پر غریب خانہ تھا


کیف عہد شباب کیا کہنا
ہر قدم پر شراب خانہ تھا


کھو گئی تھی نگاہ جلووں میں
سارا عالم نگار خانہ تھا


تم نے اس کو بھی سن لیا ہوتا
اشکؔ کا حال بھی فسانہ تھا