احمد ظفر کی غزل

    کیا پتا کس جرم کی کس کو سزا دیتا ہوں میں

    کیا پتا کس جرم کی کس کو سزا دیتا ہوں میں رنگ سا اک باندھتا ہوں پھر بھلا دیتا ہوں میں اپنے آگے اب تو میں خود بھی ٹھہر سکتا نہیں سامنا ہوتے ہی چٹکی میں اڑا دیتا ہوں میں معجزہ اگلا تو اب شاید پرانا ہو چلا دیکھنا اب کے کوئی چکر نیا دیتا ہوں میں مجھ سے آگے بھی نکل جانا بہت مشکل ...

    مزید پڑھیے

    جب تک جنوں جنوں ہے غم آگہی بھی ہے

    جب تک جنوں جنوں ہے غم آگہی بھی ہے یعنی اسیر نغمہ مری بے خودی بھی ہے کھلتے ہیں پھول جن کے تبسم کے واسطے شبنم میں ان کے عکس کی آزردگی بھی ہے کچھ ساعتوں کا رنگ مرے ساتھ ساتھ ہے وہ نکہت بہار مگر اجنبی بھی ہے زندہ ہوں میں کہ آگ جہنم کی بن سکوں فردوس آرزو مرے دل کی کلی بھی ہے اس یاد کا ...

    مزید پڑھیے

    وہ پھول جو مسکرا رہا ہے

    وہ پھول جو مسکرا رہا ہے شاید مرا دل جلا رہا ہے چھپ کر کوئی دیکھتا ہے مجھ کو آنکھوں میں مگر سما رہا ہے میں چاند کے ساتھ چل رہا ہوں وہ میری ہنسی اڑا رہا ہے شاید کسی دور میں وفا تھی یہ دور تو بے وفا رہا ہے سو رنگ ہیں زندگی کے لیکن انسان فریب کھا رہا ہے تصویر بنے تو مجھ سے کیسے ہر ...

    مزید پڑھیے

    آپ کہیں تو گلشن ہے

    آپ کہیں تو گلشن ہے ورنہ دل اک مدفن ہے آگ لگی ہے سانسوں میں ہائے یہ کیسا ساون ہے ان سے میری بات نہ پوچھ ان سے میری ان بن ہے پنچھی پنچھی سہم گیا دوست یہ اچھا گلشن ہے تاریکی مٹ جائے گی مشعل مشعل روشن ہے وقت کی ہر آواز ظفرؔ میرے دل کی دھڑکن ہے

    مزید پڑھیے

    جنگل کا سناٹا میرا دشمن ہے

    جنگل کا سناٹا میرا دشمن ہے پھیلتا صحرا دیدہ و دل کا دشمن ہے جسم کی اوٹ میں گھات لگائے بیٹھا ہے موسم گل بھی ایک انوکھا دشمن ہے نقش وفا میں رنگ وہی ہے دیکھو تو جس کی دنیا جو دنیا کا دشمن ہے ساحل مرگ پہ رفتہ رفتہ لے آیا تنہائی کا روگ بھی اچھا دشمن ہے چاند میں شاید پیار ملے گا ...

    مزید پڑھیے

    زہر کو مے نہ کہوں مے کو گوارا نہ کہوں

    زہر کو مے نہ کہوں مے کو گوارا نہ کہوں روشنی مانگ کے میں خود کو ستارہ نہ کہوں اپنی پلکوں پہ لیے پھرتا ہوں چاہت کے سراب دل کے صحرا کو سمندر کا کنارہ نہ کہوں ہجر کے پھول میں وہ چہرۂ زریں دیکھوں وصل کے خواب کو ملنے کا اشارہ نہ کہوں مرتے مرتے بھی یہ تحریر امانت میری موت کے بعد بھی ...

    مزید پڑھیے

    آسماں کی آنکھ سورج چاند بینائی بھی ہے

    آسماں کی آنکھ سورج چاند بینائی بھی ہے روشنی میرے لئے کیوں وجہ رسوائی بھی ہے کس کو سینے سے لگاؤں میں کسے اپنا کہوں سیل رنگ و بو جسے کہتے ہیں تنہائی بھی ہے مصلحت اندیشۂ غم کو ذرا کم کر گئی فلسفہ وہ جھوٹ شامل جس میں دانائی بھی ہے زہر آلودہ فضا میں جب کلی سونے لگی اشک شبنم نے کہا ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی نے پر پھیلائے رات نے اپنی زلفیں

    تنہائی نے پر پھیلائے رات نے اپنی زلفیں پلکوں پر ہم تارے لے کر چاند کا رستہ دیکھیں یہ دنیا ہے اس دنیا کا رنگ بدلتا جائے اس پربت سے پاؤں پھسلے جس پربت کو چھو لیں کیسے پیاس بجھاتے دریا ریت کا دریا نکلا لہر لہر میں موج چھپی تھی دھوکے میں تھی آنکھیں جس کو من کا میت بنایا آخر دشمن ...

    مزید پڑھیے

    اس نے توڑا جہاں کوئی پیماں

    اس نے توڑا جہاں کوئی پیماں مرحلے اور ہو گئے آساں میر ہے کوئی کوئی ہے سلطاں سوچتا ہوں کہاں گیا انساں آندھیوں میں جلا رہے تھے چراغ ہائے وہ لوگ بے سر و ساماں فلسفی فلسفوں میں ڈوب گئے آدمی کا لہو رہا ارزاں ابر بن کر برس ہی جائے گا کھیت سے جب اٹھا غم دہقاں شعلۂ گل ہے زخم دل کی ...

    مزید پڑھیے

    کسی پرندے کی واپسی کا سفر مری خاک میں ملے گا

    کسی پرندے کی واپسی کا سفر مری خاک میں ملے گا میں چپ رہوں گا شجر کی صورت شجر مری خاک میں ملے گا اداس آنکھیں سلگتے چہروں کی مجھ کو آواز دے رہی ہیں کبھی جو آباد رہ چکا ہے وہ گھر مری خاک میں ملے گا لہو کی بارش میں زرد پھولوں کی پتیوں سے لکھا گیا ہوں میں لفظ کا ذائقہ زباں پر اثر مری خاک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3