احمد ظفر کی نظم

    پاتال زمین آسمان

    کہانی کے سارے پرندے بہت دور شاید افق میں کہیں منجمد ہو گئے ہیں شجر زرد پتوں کی تصویر بن کر علامت کی تحریر بن کر بکھرنے لگا ہے کسی جھیل کے آئینے میں وہ مہ وش بدن کے کسی زاویے سے نکلنے کی خواہش میں پلکیں اٹھائے ہوئے دیکھتی رہ گئی ہے پرندوں کی مانند میں بھی یہاں تھا مگر اب نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بغیر سورج کے دن

    بغیر سورج کے دن اداسی کا ترجماں ہے بکھرتے پتوں نے مجھ سے پوچھا ہے تو کہاں ہے درخت ہر سو اداس چہرے چراغ جیسے بجھے ہوئے ہیں نہ عکس پانی میں مہ وشوں کے نہ رقص دل میں بہار جہاں ہے ہوا کے نوحوں میں تیری خوشبو رچی ہوئی ہے ہوا کے نوحوں نے مجھ سے پوچھا ہے تو کہاں ہے بغیر سورج کے دن مری ...

    مزید پڑھیے

    شب نامہ

    طشت مہتاب میں ہجر کے خواب میں دل جہاں بھی گیا لمحہ لمحہ جلا وصل کی خواہشیں خاک میں خاک ہوتی رہیں برگ گل نم زدہ غم زدہ غم زدہ کہہ اٹھا میں چلا اوس کے موتیوں کو ہوا کھا گئی زخم آوارگی دامن دل میں چپ چاپ ہنستا رہا سب پرانے نئے کتنے موسم گئے دھند کی اس طرف سارے منظر وہی منتظر صف بہ ...

    مزید پڑھیے

    میوزیم

    جاگتا ہوں تو ستارے مری آنکھوں میں اتر جاتے ہیں نیند آتی ہے تو مہتاب سا چہرہ تیرا آئینہ مجھ کو دکھاتا ہے کئی چہروں کا دیکھتے دیکھتے خوابوں میں کئی خواب بکھر جاتے ہیں وقت کی گلیوں میں آوارہ لیے پھرتا ہے احساس جمال میں سفینے کی طرح دیکھتا رہتا ہوں تجھے چاندنی میرا کفن تیری قبا بنتی ...

    مزید پڑھیے

    کائنات ذات کا مسافر

    آئینہ رقص میں حسرت کی شناسائی کا کتنے چپ چاپ خرابوں میں لیے جاتا ہے ہر طرف نرخ زدہ چہروں کی آوازیں ہیں میری آواز کہاں تھی میری آواز کہاں مدفن وقت سے کب کوئی صدا آئی ہے ایک لمحہ وہی لمحہ مری تنہائی کا زخم پر زخم مرے دل کو دیے جاتا ہے پھول کے ہاتھ میں ہے رات کے ماتم کا چراغ کبھی ...

    مزید پڑھیے

    حیرت خانۂ امروز

    اب کوئی پھول مرے درد کے دریا میں نہیں اب کوئی زخم مرے ذہن کے صحرا میں نہیں نہ کسی جنت ارضی کا حوالہ مجھ سے نہ جہنم کا دہکتا ہوا شعلہ کوئی میرے احساس کے پردے پہ رواں رہتا ہے میں کہاں ہوں؟ مجھے معلوم نہیں!! بولتے لفظ بھی خاموش تمنائی ہیں جاگتے خواب کی تعبیر یہی ہے شاید میری تقدیر ...

    مزید پڑھیے

    ڈیڈ ہاؤس

    حنوط جسموں کے کارخانے میں لاش رکھی ہوئی ہے کس کی سفید کاغذ بدن پہ کس نے ستم کے سب نام لکھ دیے ہیں یہ پھول کل تک سحر کے آنگن میں کھل رہا تھا مگر سیاہی کے تنگ حلقوں میں گھر گیا تھا! کہ خواب زنجیر بن گئے تھے عذاب تعبیر بن گئے تھے کتاب کا گرد پوش جیسے شکستہ ہو کر بکھر گیا ہو یہ کس عبارت ...

    مزید پڑھیے

    ڈرائنگ روم

    تیرا جسم لہو ہے میرا جس کی بوندیں گلدستے کے پھول ہیں دیواروں پر تصویریں ہیں کشتی کشتی ڈول رہی ہے لیپ کے سائے یہ سب میری زنجیریں ہیں جن کو میرے ذہن کا آہن کاٹ رہا ہے کب تک میں زنداں میں بیٹھا آنے والے کل کو مشت خاک سمجھ کر ذرے ذرے کو بھینچوں گا درد کی آواز سے کب تک گیت سنوں ...

    مزید پڑھیے

    عمر کا آخری دن

    یہاں میرے اندر درختوں کی کتنی قطاریں سلگتی رہیں گی وہاں تیرے اندر تڑپتے ہوئے لفظ لمحے پرندے قطاروں میں بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں درختوں کے پیچھے کئی چاند ٹوٹے ہوئے ریزہ ریزہ لہو میں نہائے ہوئے کتنے سورج مزاروں کے کتبے! کہیں ڈھول کی تھاپ پر رقص مرگ مسلسل کہیں دلدلوں میں اترتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے