وہ پھول جو مسکرا رہا ہے
وہ پھول جو مسکرا رہا ہے
شاید مرا دل جلا رہا ہے
چھپ کر کوئی دیکھتا ہے مجھ کو
آنکھوں میں مگر سما رہا ہے
میں چاند کے ساتھ چل رہا ہوں
وہ میری ہنسی اڑا رہا ہے
شاید کسی دور میں وفا تھی
یہ دور تو بے وفا رہا ہے
سو رنگ ہیں زندگی کے لیکن
انسان فریب کھا رہا ہے
تصویر بنے تو مجھ سے کیسے
ہر نقش مجھے مٹا رہا ہے
جو لمحہ پیام ہے فنا کا
چپ چاپ قریب آ رہا ہے
طوفاں نے بھی آنکھ کھول دی ہے
ساحل بھی نظر بچا رہا ہے
فن کار کہوں اسے تو کیسے
تخلیق کو جو مٹا رہا ہے
تقدیر مٹا چکی تھی جس کو
تدبیر کا راز پا رہا ہے
آواز سے آگ لگ رہی ہے
مطرب ہے کہ گیت گا رہا ہے
احساس شکست و کامرانی
آئینے کئی دکھا رہا ہے
وہ خاک نشیں ظفرؔ ہے یارو
جو سوئے فلک بھی جا رہا ہے