تنہائی نے پر پھیلائے رات نے اپنی زلفیں
تنہائی نے پر پھیلائے رات نے اپنی زلفیں
پلکوں پر ہم تارے لے کر چاند کا رستہ دیکھیں
یہ دنیا ہے اس دنیا کا رنگ بدلتا جائے
اس پربت سے پاؤں پھسلے جس پربت کو چھو لیں
کیسے پیاس بجھاتے دریا ریت کا دریا نکلا
لہر لہر میں موج چھپی تھی دھوکے میں تھی آنکھیں
جس کو من کا میت بنایا آخر دشمن ٹھہرا
کس کس کو ہم میت بنائیں کس کس سے ہم الجھیں
لوہا سونا بن سکتا ہے پتھر ہیرا موتی
سوچ سمجھ کی بات ہے ساری کچھ سوچیں کچھ سمجھیں
اپنا درد بھلا دیں اے دل اس کے درد کی خاطر
اپنے گھاؤ یاد نہ آئیں چاند کا گھاؤ دیکھیں