شوق وارفتہ چلا شہر تماشا کی طرف
شوق وارفتہ چلا شہر تماشا کی طرف
بڑھ گئے ہم بھی حصار حسن لیلیٰ کی طرف
ہم سے موجیں کہہ رہی تھیں آ مری آغوش میں
ہم کہاں یوں جا رہے تھے موج دریا کی طرف
اس قدر ڈوبے گناہ عشق میں تیرے حبیب
سوچتے ہیں جائیں گے کس منہ سے توبہ کی طرف
کیا ضروری ہے کہ حرص جلوئے صد رنگ میں
ہر نظر بھٹکے کسی بھی حسن آرا کی طرف
آیت حسن و محبت سے ہے بس دو ہی مراد
ایک ہے میری طرف اک ماہ پارہ کی طرف
شہر دل ویرانہ کردم پا بہ جولاں می کنی
جی کھنچا جاتا ہے اپنا اب تو صحرا کی طرف
ساری دنیا دشمن جاں بن گئی ہے اے سراجؔ
کوئی پتھر بھی نہ آیا تیرے شیدا کی طرف