مجھ کو اک عرصۂ دلگیر میں رکھا گیا تھا

مجھ کو اک عرصۂ دلگیر میں رکھا گیا تھا
زہر گویا کسی اکسیر میں رکھا گیا تھا


حاشیہ متن سمجھ لے جو پڑھے قصۂ غم
انتظام ایسا بھی تحریر میں رکھا گیا تھا


خواب آلود نگاہوں سے یہ کہتا گزرا
میں حقیقت تھا جو تعبیر میں رکھا گیا تھا


عمر بھر اس لئے برسیں مری آنکھیں اے دوست
ایک صحرا مری جاگیر میں رکھا گیا تھا


میری آنکھوں میں ہر اک رنگ تھا تنہائی کا
اک خلا بھی مری تصویر میں رکھا گیا تھا