اے غزل تیری نظر جب سے اتاری ہم نے
اے غزل تیری نظر جب سے اتاری ہم نے
رکھ دیا نام ترا راجکماری ہم نے
اس لیے غم کو بنا رکھا ہے اپنا ساتھی
تجھ کو دے دی ہے خوشی ساری کی ساری ہم نے
دل کے جذبات زمانے کو بتانے کے لیے
شعر گوئی کا سفر رکھا ہے جاری ہم نے
درد فرقت میں نہ سو پاؤ گے اب چین سے تم
نیند آنکھوں سے چرا لی ہے تمہاری ہم نے
جو کہا تجھ سے اکیلے میں کہا اے ظالم
آبرو کب تری محفل میں اتاری ہم نے
نقد ہے عشق کا سودا یہ ہوا جب معلوم
اس میں رکھی ہی نہیں کوئی ادھاری ہم نے
ہیں کہاں جن پہ ادب کا تھا کبھی دار و مدار
اب تو اسٹیج پہ دیکھے ہیں مداری ہم نے
یہ حقیقت ہے تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا
کیا کروگے جو کبھی توڑ دی یاری ہم نے
ان سے بچھڑے ہیں تو پھر نیند نہ آئی رہبرؔ
تارے گن گن کے ہر اک رات گزاری ہم نے