عداوتوں سے محبت کا غم نکالتے ہیں

عداوتوں سے محبت کا غم نکالتے ہیں
ہم اپنے دل کو بھی مرضی سے کب اچھالتے ہیں


یہ پوری دنیا ہی بے ہوش ہو گئی ہے بھلا
ہمیں خبر ہی نہیں کس کو کب سنبھالتے ہیں


جہاں جہاں بھی ضرورت پڑی محبت کی
ہم اپنے خون کو پیکر میں بھر ہی ڈھالتے ہیں


خود ایسے دوست رکھے ہیں کہ جو وفا نہ کریں
ہم اپنے شوق سے زہریلے سانپ پالتے ہیں


یہ مے کدہ کی روایت عجب لگی بشریٰؔ
جو گرنے لگتا ہے اس کو نہیں سنبھالتے ہیں