اب اپنے درمیاں شیشے کی اک دیوار باقی ہے
اب اپنے درمیاں شیشے کی اک دیوار باقی ہے
مرے دکھ اور ترا نا معتبر کردار باقی ہے
ادھر دینار و درہم اور ادھر تیرا پھٹا دامن
مرے یوسف تجھی سے گرمئ بازار باقی ہے
ہمارے سر قلم ہوتے ہیں ہم بیعت نہیں کرتے
کہ ہم لوگوں میں اب بھی جرأت انکار باقی ہے
بدلتے وقت نے سب کچھ بدل ڈالا مگر خوش ہوں
مرا لہجہ وہی ہے اور مرا معیار باقی ہے