آج بے چہرہ ہیں چہروں کے سمندر کتنے

آج بے چہرہ ہیں چہروں کے سمندر کتنے
آئنے ڈھونڈتے پھرتے ہیں سکندر کتنے


میں نے بچوں کے نمونے کے جو بنوائے تھے
بہہ گئے وقت کے سیلاب میں وہ گھر کتنے


ایک آنسو بھی نہیں ایک تبسم بھی نہیں
مٹ گئے حرف غلط بن کے مقدر کتنے


ہم نے اپنا ہی مکاں آج کھلا چھوڑ دیا
پھینک سکتا ہے کہیں سے کوئی پتھر کتنے


گرم بازاری صلیبوں سے بڑھی ہے آگے
رات دن کرتے ہیں سوداگری خنجر کتنے


تشنگی ڈستی رہی تشنہ لبی کو لیکن
شیش محلوں میں چھلکتے رہے ساغر کتنے


ہو گیا لفظ وفا بند کتابوں میں رضاؔ
سرد مہری کے ہر اک سمت ہیں دفتر کتنے