کلامِ اقبال: عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے 

عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے 

ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے 

 

ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے 
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے 

غبار رہ گزر ہیں کیمیا پر ناز تھا جن کو 
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے 

Auqabi Shan Se Jhapte The Jo, Bebaal-O-Par Nikle (Track 03)

null

ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا 
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے 

حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے 
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے 

زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے 
یہ خاکی زندہ تر پایندہ تر تابندہ تر نکلے 

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں 
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے

متعلقہ عنوانات