ظلم سہ کر انہیں حسرت سے تکا کرتے ہیں

ظلم سہ کر انہیں حسرت سے تکا کرتے ہیں
ہم نگاہوں سے بھی فریاد کیا کرتے ہیں


مجھ سے یہ کہہ کے وہ تاویل جفا کرتے ہیں
ہم تجھے خوگر تسلیم و رضا کرتے ہیں


غم میں ہم عیش کو یوں جلوہ نما کرتے ہیں
درد کو درد کی لذت میں فنا کرتے ہیں


یہ بھی ممکن ہے کہ غم سے ہو خوشی کی تکمیل
اشک بھی جوش مسرت میں بہا کرتے ہیں


جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ نزدیک ہے تو
ہم بھی وہ دور کی آواز سنا کرتے ہیں


بے خبر اپنے فرائض سے نہ غم ہے نہ جنوں
ہم ہنسا کرتے ہیں اور اشک بہا کرتے ہیں


جان دیتے تھے کبھی زیست پہ ہم اے شاداںؔ
اب تو مرنے کی تمنا میں جیا کرتے ہیں