پہنچ گیا جو تصور کسی کی محفل تک

پہنچ گیا جو تصور کسی کی محفل تک
چراغ جل گئے گویا نگاہ سے دل تک


وہ اجنبی سی نگاہیں اتر گئیں دل تک
مسافر آ گئے بھولے سے اپنی منزل تک


ہجوم حسرت و ارماں کا ذکر اور دل تک
پہنچ سکا نہ کوئی اپنے ساتھ منزل تک


دعا ملی تھی تباہی کی جن سفینوں کو
وہ لوٹ آئے ہیں طوفاں کو لے کے ساحل تک


وہ جن کا راہ نماؤں نے ساتھ چھوڑ دیا
پہنچ گئے غم منزل کو لے کے منزل تک


بہت طویل نہیں پھر بھی اے تجلیٔ دوست
ہزار موڑ ملیں گے نگاہ سے دل تک


تفکرات الجھتے رہے دماغوں سے
نظر بچا کے محبت پہنچ گئی دل تک