جنوں ہے تو قفس کب تک قفس کی تیلیاں کب تک

جنوں ہے تو قفس کب تک قفس کی تیلیاں کب تک
نہ آئے گی ادھر آخر ہوائے گلستاں کب تک


رہے گی میرے دم سے گرمیٔ بزم جہاں کب تک
فغاں پر ناز ہے مجھ کو مگر تاب فغاں کب تک


مرا افسانۂ ہستی ہے افسانہ در افسانہ
سنے گا کوئی میری زندگی کی داستاں کب تک


بدل دے خود نظام دہر کو گر تجھ میں ہمت ہے
کرے گا انتظار انقلاب آسماں کب تک


نہ کر مجبور اے صیاد مجھ کو خود فریبی پر
تیرے کہنے سے میں سمجھوں قفس کو آشیاں کب تک


کسی دن ختم ہی ہوں گی تعین کی حدیں آخر
رہے گی شوق سجدہ پر یہ قید آستاں کب تک