شکست کھا کے تیرے غم سے کامیاب ہوا
شکست کھا کے تیرے غم سے کامیاب ہوا
دل اس مقام پہ ڈوبا کہ آفتاب ہوا
سکون شوق مبدل بہ اضطراب ہوا
کسی نے پردہ کیا اور میں بے نقاب ہوا
تری نظر ہی تو محفل کی جان ہے ساقی
نگاہ تو نے اٹھائی کہ انقلاب ہوا
مری جبیں کو دم نزع چومنے والے
غروب ہونے لگا میں تو آفتاب ہوا
خوشی کا کوئی نتیجہ نہ غم کا کچھ حاصل
یہ زندگی نہ ہوئی زندگی کا خواب ہوا
نہ راس آئی مجھے زحمت طلوع و غروب
میں زندگی میں کئی بار آفتاب ہوا
کلی کو پھول تو بنتے سبھی نے دیکھا ہے
کسی نے یہ بھی کہا کون بے نقاب ہوا