اعتماد عشق کو کیوں رائیگاں سمجھا تھا میں

اعتماد عشق کو کیوں رائیگاں سمجھا تھا میں
ان کے جلوے بھی وہیں نکلے جہاں سمجھا تھا میں


ایک پسندیدہ گرفتاری تھی آزادی نہ تھی
ایک قفس تھا وہ بھی جس کو آشیاں سمجھا تھا میں


کس قدر طعنے دئے ہیں ہمت پرواز نے
سوچتا ہوں کیوں قفس کو آشیاں سمجھا تھا میں


اے معاذ اللہ مفہوم وفا کی وسعتیں
زندگی کو مختصر سی داستاں سمجھا تھا میں


کس قدر مرغوب تھا دل کو مقدر کا فریب
ایک پردہ تھا جہاں سب کچھ نہاں سمجھا تھا میں


باوجود گمرہی اللہ رے جوش تلاش
منزلوں کو بھی غبار کارواں سمجھا تھا میں


کیا خبر شاداںؔ یہ غم بھی جاوداں ہے یا نہیں
عیش کو بھی یوں ہی کچھ دن جاوداں سمجھا تھا میں