زندگی تیری عنایت بھی غضب ہوتی ہے

زندگی تیری عنایت بھی غضب ہوتی ہے
عشق ہو جائے تو حالت ہی عجب ہوتی ہے


بس محبت بھی ہے داغ کف موسیٰ کی طرح
معجزے کیا نہیں ہوتے ہیں یہ جب ہوتی ہے


اے مرے دل مجھے یہ آس دلائے رکھنا
اک نظر لطف کی اب ہوتی ہے اب ہوتی ہے


یہ غنیمت ہے کہ ہے نغمۂ سوز ہستی
زندگی یوں بھی کہاں رقص طرب ہوتی ہے


روح دراصل محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
دم میں دم دل میں یہ دھڑکن کا سبب ہوتی ہے


تشنگی حد سے گزر جائے نہ بعد تسکیں
اور مل جائے تو پھر اور طلب ہوتی ہے


بے خودی سا کوئی عالم ہے خودی پر طاری
کیفیت ایسی خبر کیا مجھے کب ہوتی ہے


دل چرا لے جو اسے کہتی ہے جاں بھی دے دو
یہ محبت بھی طبیعت کی عجب ہوتی ہے


میرے بس میں تو فقط مشق سخن ہے پنہاںؔ
خود غزل چاہے کہ ہو جائے یہ تب ہوتی ہے