تضاد فطرت نفس نفس ہے

تضاد فطرت نفس نفس ہے
کہیں محبت کہیں ہوس ہے


یہیں تو لیتی ہے روح سانسیں
یہ دل دریچہ بدن قفس ہے


گلاب ساعت رہے سلامت
جہاں بھی خوشبو سے رنگ مس ہے


میں اپنے خوابوں کی راکھ ہوں اب
نہ آگ باقی نہ خار و خس ہے


نظر جو آ نہ سکے وہ پنہاںؔ
اگر یقیں ہے کہ ہے تو بس ہے