بہت آزاد ہوتا جا رہا ہے
بہت آزاد ہوتا جا رہا ہے
یہ دل برباد ہوتا جا رہا ہے
سبھی آموختوں کو بھول جاؤں
سبق یہ یاد ہوتا جا رہا ہے
خدا کے نام پر دنیا میں کیا کیا
ستم ایجاد ہوتا جا رہا ہے
مجھے لگتا ہے اب میرا ہی قیدی
مرا صیاد ہوتا جا رہا ہے
جو سچ پوچھو غزل کا فن تو پنہاںؔ
خود اپنی داد ہوتا جا رہا ہے