اے دل تری بربادی کے آثار بہت ہیں
اے دل تری بربادی کے آثار بہت ہیں
شہکار کے بہروپ میں فن کار بہت ہیں
ناواقف آداب محبت کو سزا کیا
اے حسن ازل تیرے خطا کار بہت ہیں
یادوں کی بہاریں بھی ہیں ویرانۂ دل میں
اس دشت بیاباں میں یہ گلزار بہت ہیں
یہ وقت کی سازش ہے کہ سورج کی شرارت
سائے مری دیوار کے اس پار بہت ہیں
دل خود جو نہیں رکھتے ہیں وہ لیتے بھی نہیں دل
خوددار زیادہ ہیں جو نادار بہت ہیں
جینے کے لئے دل میں جگہ چاہیے ورنہ
مرنا ہے تو پھر بس در و دیوار بہت ہیں
بس خیر کی ہو خیر دعا آؤ یہ مانگیں
لگتا ہے کہ اب شر کے طرف دار بہت ہیں
خود سے بھی تو ملنے کی اجازت نہیں دیتے
ہستی کے حقائق جو پر اسرار بہت ہیں
جینے بھی نہیں دیتے ہیں مرنے بھی نہ دیں گے
کچھ میرے سوالات جو بیکار بہت ہیں
دیوان پہ دیوان بھی کم ہوتے ہیں پنہاںؔ
اشعار جو دل چھو لیں وہ دو چار بہت ہیں