جان من آپ تو بیزار ہوئے بیٹھے ہیں
جان من آپ تو بیزار ہوئے بیٹھے ہیں
کیا مسیحا مرے بیمار ہوئے بیٹھے ہیں
اس ادا پر مرا دل کیا مری جاں بھی حاضر
آپ یوں کھنچ کے جو تلوار ہوئے بیٹھے ہیں
دشمن جاں تھے تو کرتے تھے تعاقب لیکن
جان جاں ہو کے تو بیکار ہوئے بیٹھے ہیں
شام کی چائے کا وعدہ وہ ادھر بھول گئے
ہم ادھر صبح سے تیار ہوئے بیٹھے ہیں
حاصل عشق ہے کیا حسن نظر سے آگے
خوش گماں طالب دیدار ہوئے بیٹھے ہیں
پھر زمانے کا ہے اصرار چلو ساتھ چلو
اور ہم راہ میں دیوار ہوئے بیٹھے ہیں
ان کی نظروں کا اشارہ ہے نظام ہستی
اپنی قدرت کا جو شہکار ہوئے بیٹھے ہیں
زندگی خواب مگر خواب حقیقت نگراں
ہم یہ کس نیند میں بیدار ہوئے بیٹھے ہیں
داد و تحسین کی پروا نہیں ہم کو پنہاںؔ
ہم غزل کہہ کے ہی سرشار ہوئے بیٹھے ہیں