زندگی سچ کی حمایت نہیں کرنے دیتی

زندگی سچ کی حمایت نہیں کرنے دیتی
ایسی کوئی بھی عبادت نہیں کرنے دیتی


مصلحت عقل سے کہتی ہے کہ اک حد میں رہو
اور دل کو بھی شرارت نہیں کرنے دیتی


الجھی رہتی ہے نظر سے کوئی دزدیدہ نظر
قلب و جاں کی جو حفاظت نہیں کرنے دیتی


اب تو حال دل بیمار خدا ہی جانے
حالت زار عیادت نہیں کرنے دیتی


ہم جدائی میں تو بیزار نہیں تھے ایسے
کیا محبت یہ رفاقت نہیں کرنے دیتی


کام کچھ کرنے نہیں دیتے ریاست کو بھی ہم
اور کچھ ہم کو ریاست نہیں کرنے دیتی


تیری جنت کو ترستی ہوئی تیری دنیا
تیری دنیا پہ قناعت نہیں کرنے دیتی


تشنگی مہر بہ لب تشنہ لبی ہے اب تو
چشم ساقی کی شکایت نہیں کرنے دیتی


شمع جاں بھول گئی کیسے بھڑک اٹھنا تھا
شام غم صبح قیامت نہیں کرنے دیتی


ارتقا کی تو حمایت میں غزل ہے پنہاںؔ
بس روایت سے بغاوت نہیں کرنے دیتی