زندگی جب سوال کرتی ہے
زندگی جب سوال کرتی ہے
کب کسی کا خیال کرتی ہے
چاند مسند پہ بیٹھ جاتا ہے
چاندنی عرض حال کرتی ہے
اپنے مطلب کے واسطے دنیا
کیوں مجھے استعمال کرتی ہے
زخم دیتی ہے زندگی خود ہی
اور خود اندمال کرتی ہے
دل کے پودوں کو وقت کی آندھی
کس طرح پائمال کرتی ہے
رحم کرتی ہے ہم پہ دنیا بھی
ہاں مگر خال خال کرتی ہے
زندگی کو زوال ہے لیکن
موت تو لا زوال کرتی ہے