کوئی دیوار ہے نہ در اپنا

کوئی دیوار ہے نہ در اپنا
کتنا محفوظ ہے یہ گھر اپنا


کون جیتا تھا نام کو تیرے
اور جھکائے رہا تھا سر اپنا


ریل گاڑی کے سگنلوں کی طرح
چلتا رکتا ہوا سفر اپنا


چند آنسو ہیں کچھ دعائیں ہیں
بس یہ سامان مختصر اپنا


دوستی جب کسی سے کرتے ہیں
دل ہی رکھتے ہیں کھول کر اپنا


اور کیا دے گی یہ ندی آخر
سونپ دے گی مجھے بھنور اپنا


سارے اعداد تم نے چھین لئے
لے کے بیٹھے ہیں ہم سفر اپنا


اپنی تخلیق سے تغافل کیوں
اک ذرا دیکھ لے بشر اپنا