ہر اک یقین کو دیکھا گمان ہوتے ہوئے
ہر اک یقین کو دیکھا گمان ہوتے ہوئے
رہی یوں بات ادھوری بیان ہوتے ہوئے
ہے میرا چاند مرے واسطے ہی اترا جو
زمیں پہ رہتا ہے وہ آسمان رہتے ہوئے
اب اور کون سا رہبر دکھائے گا رستہ
بھٹک رہے ہیں مسلماں قرآن ہوتے ہوئے
وہ پنچھی یوں بھی شکاری کی زد پہ آئے گا
سمیٹ لے جو پروں کو اڑان ہوتے ہوئے
کبھی بھی آنکھ میں رکھنا نہ راز دل کوئی
کرے گی بات عیاں بے زبان ہوتے ہوئے
ہم عاشقوں کی یہ حجت عجیب ہوتی ہے
کسی کے پیار میں مرتے ہیں جان ہوتے ہوئے
بجا رہا ہے بہت وقت گھنٹیاں جوہرؔ
ہمی نہ سن سکیں آواز کان ہوتے ہوئے