غزلوں کو جسم سوچ کو عنوان مل گئے

غزلوں کو جسم سوچ کو عنوان مل گئے
وہ کیا ملے کے فکر کے سامان مل گئے


دل سے چلے تو آنکھ کی بستی میں آ گئے
رستے ہمارے درد کو آسان مل گئے


دیکھا انہیں تو جسم کے سب تار بج اٹھے
آنکھوں کو خواب قلب کو ارمان مل گئے


بے ربط دھڑکنوں کو نئے رابطے ملے
مدہوشیوں کو پھر نئے اوسان مل گئے